(عبد الحق امام( گورکھپور
موسم یہ کیسا آیا ہے
قہر کا بادل منڈلایا ہے
کیسی چلی یہ بادِ سموم
چہرہ چہرہ ہے مغموم
جس کو دیکھو وہ بے حال
ہر سو، اڑتی گردِ ملال
پوچھئے مت حالِ رنجور
زخموں سے ہر دل ہے چور
بازاروں میں ہنگامہ ہے
گلیوں میں کہرام مچا ہے
میرٹھ ؔ، مئوؔ، مراد آباد
کون نہیں ان میں برباد
ملیانہؔ ہو یا کہ بھیونڈیؔ
یا کہ علی گڑھؔ بارہ بنکیؔ
کوٹہؔ، بھاگلپورؔ، بنارسؔ
ظلم کے آگے سب ہیں بے بس
سہسرامؔ، مونگیر،بدایوںؔ
دربھنگہؔ میں بھی ہے جوں توں
فیض آباد و الہ آباد
ہر جانب برپا ہے فساد
ہر اک کا دل گھبرایا ہے
سب پر موت کا اک سایا ہے
اہلِ سیاست کی چالوں نے
رام جنم بھومی والوں نے
شیلا نیاس کا پختہ جذبہ
مسجد ڈھانے کا منصوبہ
لے کے ایودھیا میں آئے ہیں
سرپہ حکومت کے سائے ہیں
چاہے دنگا ہو کہ فساد
رکھ کے رہیں گے وہ بنیاد
آخر اذنِ حکومت پاکر
کر گئے اپنا کام وہ آکر
تکتی رہی منہ جمہوریت
گم سم تھے قانون و عدالت
صوبہ یوپیؔ ہو کہ بہار
جھیل رہے ہیں سب آزار