(عبد المتین جامی(کٹک
رباعی
طوفاں ہیں حواد ث کابہت تیز ابھی
خنجر بھی تنفر کا ہے خونریز ابھی
ہم راہ تخلیق سے ہٹتے ہیں کہاں
ہے ذہن میں اک منظر گلریز ابھی
٭٭
آساں نہیں مل جائے بہت جلد سکون
پھیلے گا دھرتی پر کچھ اور جنون
جس طرح بدلتا ہے لوگوں کا مزاج
بہنا ہے زمیں پر ابھی کچھ اور بھی خون
٭
آزارِ مسلسل سے تھا گھائل وہ شخص
پھر بھی تو رہا امن کا قائل وہ شخص
اب سوچ کا انداز ہی بدلا اس نے
ہر چیز بدلنے پہ ہے مائل وہ شخص
٭
بکھرا ہے ہر اک خواب سہانا اپنا
کھویا ہے منزل کا ٹھکانا اپنا
کچھ اتنا پریشاں رہے ہیں ہم لوگ
لکھا نہ گیا ہم سے فسانہ اپنا
٭
ہے وقت کی آلودہ فضا کس کے لئے
زہریلی ہے سانسوں کی ہوا کس کے لئے
جینے کی آرزو نہیں ہے لیکن
کرتے ہے ہیں جینے کی دعاء کس کے لئے
٭
مغرب میں چلی دوست عجب اک تحریک
سب لوگ وہاں پیتے ہیں زہر تشکیک
ظاہر میں روشنی کے قائل ہیں سب
باطن میں ہے ان سب کے عذاب تاریک
٭٭٭