ہنسوں تو اہلِ عالم سب شریک خندہ ہوتے ہیں
جو روؤں تو کوئی ہمدم نہیں جز رنج تنہائی
خوشی میں حصہ لینے کے لئے تیار ہے دنیا
مگر کوئی نہیں سرمایہ غمِ تنہائی
جو گاؤ تو جو اب نغمہ کوہساروں سے سنتا ہوں
بھروں آہیں تو رہ جاتی ہیں معدوم فضا ہو کے
صدائے باز گشت آتی ہے سن کر نغمہ عشرت
مگر نالوں سے کترا جاتی ہے نا آشنا ہو کر
سناتا ہوں خموشی تو مرجع جہاں ہوں میں
مگر مغموم ہوتا ہوں سب آنکھیں چراتے ہیں
زمان عیش ہی میں دوست ہیں دنیا کے باشندے
یہ میرے داستان درد کب سننے کو آتے ہیں
اگر خوش ہوں تو لاکھوں میں میرے احباب شیدائی
جو غم کہاؤں ، غم بے مہری یاراں سے مرتا ہوں
مرے شغل مئے گلگلوں میں سب شرکت کے خواہاں ہیں
مگر تلخانہ حسر ت کے میخانے میں تنہا ہوں
بچھاؤں خواننعمت تو بہت ناخواندہ مہماں ہیں
نہیں ہے فاقہ مستی میں شریک حال بد کوئی
سخاوت زندگی میں کامیابی کی معاون ہے
مگر ہنگامِ مردن کو نہیں سکتا مدد کوئی
بساطِ محفل عشق و مسرت وہ وسعت ہے
کہ طول و عرض میں اس کے سما سکتی ہے اِک دنیا
مگر اس تنکنائے غم میں اے دنیا کے باشندوں
گزرنا ہے ہجوم بے کسی میں ہر بشر تنہا
******