اور کب تک بہم رہیں گے یہاں
تو رہے گا کہ ہم رہیں گے یہاں
راہرو دور جا چکے ہونگے
راہ کے پیچ و خم رہیں گے یہاں
ہم یہاں ہونگے یا نہیں ہونگے
اُس کے لطف و کرم رہیں گے یہاں
دل میں تری مہک اترنے تک
ہم تو خوابِ عدم رہیں گے یہاں
تیری مٹی بکھر چکی ہو گی
تیرے نقشِ قدم رہیں گے یہاں
ابھی اس آنکھ کا اشارہ نہیں
ہم ابھی کوئی دم رہیں گے یہاں
تیرے مہمان ہوئے ، خراب ہوئے
پھر جو آئے تو کم رہیں گے یہاں
ابرار احمد