اور رہنا تھا کیا ، فاصلہ رہ گیا
دور تک میں اسے دیکھتا رہ گیا
کام یوں تو مکمل کیے ہیں سبھی
زندگی میں خُدا جانے کیا رہ گیا
سو چکا تھا تہہِ خاک میں جس گھڑی
میرے اندر کوئی جاگتا رہ گیا
لا تعلق رہے اس تعلق میں ہم
اور جامِ تعلق دھرا رہ گیا
سب چراغوں کو بجھنا تھا ، بجھتے گئے
آنکھ میں ایک جلتا دیا رہ گیا
ابرار احمد