....نظم
....میر کو پڑھتے ہوے
جیسے بہت تیز گاڑی چلاتے ہوے اونگھ آ جاۓ
ٹکرا جاۓ آدمی ،درختوں سے
اندھیرے کے غلاف میں
ساری چکا چوند گم ہو جاۓ
وقت الٹے پھیرے لگانے لگے
شاہراہیں اور بستیاں
ان سنی آوازوں سے بھر جائیں
چولہوں پر پانی پڑجاۓ
کانٹوں سے بھر جائیں آنکھیں
آدمی --پر کٹے پرندے کی طرح مٹی میں لوٹنے لگے
جس پر بارش کے قطرے
ابھی خوشبو دے رہے ہوں
بیٹھ رہے غبار بن کر ----
مرغ کی اذان کے ساتھ ،غزل گاتے فقیر کی آواز
سر پھوڑنے لگے ، گہری نیندوں کے کواڑوں سے
درد سے دل بھر جائیں
اور ایک دیوار کانپ اٹھے
جیسے فصیلوں میں در نکل آیئں
آسایش کی کرسی سے اٹھ کر نکل پڑے آدمی
منجمد لمحوں سے الجھنے کو
گلیوں میں اک تارا بجاتا
خواہ مخواہ اوڑھی ہوئی تھکن اتار پھینکے
کسی خاموش بستی کے خالی موڈ پر کھڑا ہو جاۓ
دھول میں سے کسی کے برامد ہونے کے انتظار میں
کسی بھی جانب چل پڑے
کہیں بھی نہ پوھنچنے کے لیے
ٹھنڈک بھرے ہاتھ کی طرح
کوی چاند دل کو مسلنے لگے
آدمی بے آہ ب آنسووں میں نہا جاۓ
اور اسے معلوم ہو جاۓ
کہ عشق کے افسوں میں ، موت کو گلے لگانا
اسی قدر آسان ہے
جیسے
کسی موہوم آ ہ کو بازووں میں بھر لینا !!
ابرار احمد