دیار خواب ، رہ رفتگاں سے دیکھتا ہے
کہ جیسے کوئی مجھے آسماں سے دیکھتا ہے
ضرور ہو گا کہیں کوئی دیکھنے والا
مگر ہمیں وہ نہ جانے کہاں سے دیکھتا ہے
یہ دیکھنا ہی بڑی بات ہے ،مگر یوں ہے
کوئی یقیں سے تو کوئی گماں سے دیکھتا ہے
یہاں کسی کی نظر کا کچھ اعتبار نہیں
کہ جو بھی دیکھتا ہے درمیاں سے دیکھتا ہے
میں بہتے پانی پہ جب آنکھ گاڑتا ہوں کبھی
بہ چشم نم کوئی آب رواں سے دیکھتا ہے
ہے مرتکز جو کوئی آنکھ ، ماورا ے حواس
تو کوئی باب زمان و مکاں سے دیکھتا ہے
ہم اٹھ بھی آے ہیں اس باغ سے مگر وہ ہمیں
تماشا ہاے بہار و خزاں سے دیکھتا ہے
کدھر کو کھو گیا جو ہم رکاب تھا اس کا
کوئی سوار ہے اور کارواں سے دیکھتا ہے
عدو تو خیر وہ ہرگز نہیں مگر بوجوہ
مجھے وہ دوست صف دشمناں سے دیکھتا ہے
ابرار احمد