یہ رہ عشق ہے اس راہ پہ گر جاے گا تو
ایک دیوار کھڑی ہو گی جدھر جاے گا تو
شور دنیا کو تو سن ، رنگ رہ یار تو دیکھ
ہم جہاں خاک اڑاتے ہیں ادھر جاے گا تو
در بہ در ہے تو کہیں جی نہیں لگتا ہو گا
وہ بھی دن آے گا ، تھک ہار کے گھر جاے گا تو
عازم ہجر مسلسل ہوا اس مٹی سے
لوٹ آے گا یہیں اور کدھر جاے گا تو
جان جاے گا کہ منزل نہیں موجود کہیں
خوش گماں ہے ابھی سر گرم سفر جاے گا تو
آرزو رکھ اسے پانے کی کوئی روز ابھی
پھر یہیں بام تمنا سے اتر جاے گا تو
یہ جو طوفان تیرے گرد ہے دیوانگی کا
اک ذرا تیز ہوا اور بکھر جاے گا تو
کارواں گرد ہوا ، چپ ہوئی آواز جرس
کیا اب اس سمت کو تا حد نظر جاے گا تو
اب کہاں خواب محبت کہ وہ شب دور نہیں
جب کہیں خاک بھری نیند سے بھر جاے گا تو
ابرار احمد