آخری دن سے پہلے
نظم
بہت دن رہ لیا کو ے ندامت میں
ہزیمت کے بہت سے وار ہم نے سہ لیے
ترا یہ شہر ، شہر جاں نہیں ہے
ترے اس شہر میں اب اور کیا رہنا
ہمارے خواب ، تیرے خار و خس میں تھے
ہمارے لفظ ، تیری پیش و پس میں تھے
کہ ہم ہر سانس
تیری دسترس میں تھے
تیرے اجلے دنوں سے ہم کو کیا حصّہ ملے گا
گدا کے ہاتھ میں
ٹوٹا ہوا کاسہ رہے گا
ہمیشہ کے لیے شاید
یہی قصّہ رہے گا
اب اس دھوکے میں کیا رہنا
بہت دن رہ لیا .........
ابرار احمد