اب کوئی بام پر رہے گا کہاں
تو پریشاں نظر رہے گا کہاں
خاک تیری جہاں مقیم ہوئی
یہ جو گھر ہے تو گھر رہے گا کہاں
بے ٹھکانہ بکھر رہیں گے ہم
پھر حضر اور سفر رہے گا کہاں
یاں جو اک بار بھی نہ رہ پایا
پھر وہ بار دگر رہے گا کہاں
وہ اجالے وہ صبحیں روٹھ گئیں
اے مرے خوش نظر ،رہے گا کہاں
کام لے کوئی اپنی وحشت سے
پھر یہ سودا ، یہ سر رہے گا کہاں
مٹ رہے گی کبھی یہ بے خوفی
اور جو دل میں ہے ڈر رہے گا کہاں
بند ہے اب دکان گریہ بھی
تو سر رہگزر رہے گا کہاں
منزلوں منزلوں بھٹکتا ہے
جانے یہ دل ٹھہر رہے گا کہاں
خاک زادوں کو روند لے کچھ دن
پھر تیرا کر و فر رہے گا کہاں
حال عشاق و خواب دل زدگاں
تیرے پیش نظر رہے گا کہاں
بند ہے اب وہ گھر وہ دروازہ
بول اب کے تو مر رہے گا کہاں
چشم بیمار سو گئی جس دم
تو مرے چارہ گر ، رہے گا کہاں
ابرار احمد