کیسے اتروں پار
میں نے تیرے ساتھ سمندر پار کیا
کٹھن دنوں کا
خوابوں اور آوازوں کا
اور انجان جزیروں کی تنہا راتوں کا
موت کی کالی لہروں سے بچ کر نکلا ہوں
تیرے ہاتھوں کی کشتی میں
اور اب تیرے بدن سے گرتی
بوندوں کی مہکار میں سویا رہتا ہوں ...
ساحل ، یاد
اندھیرے کی نمناک پھوار...
ٹھنڈی ریت پہ گرے پڑے ہیں
تیری سانسوں کے پتوار
اور اب یہ اک اور سمندر
کدھر گئے تیرے ہاتھ ....؟؟
ابرار احمد