ایک پتھر سے خود کو جوڑ لیا
صبح دم جس زمیں پہ کروٹ لی
اٹھ کے آغاز رقص خاک کیا
اب ان اطراف کا نشاں بھی نہیں
ہم تھے آوارگان قریہ خاک
... اور پوھنچنا کہیں نہ تھا ہم کو
پھر بھی کچھ راستے بلاتے رہے
کوئی دن تیرے دل میں بھی تھا قیام
کوئی دن تھا کہیں یہ دل رقصاں
کوئی مہکار تھی بھٹکتی ہوئی
سبزہ و گل تھے ہم رہ دل و جاں
گھاس اگ آئی ہے یہاں سے وہاں
کوئی دن دھول سے بھرے کچھ دن
سانس میں گرہ سی لگاۓ رہے
یونہی چپ چاپ ،بے طلب ،بے تاب
گرد اوہام سے الجھتے رہے
تھم گۓ، جم گۓ نہ جانے کہاں
اپنے ہی چاک سے ادھرتے رہے
اپنے ہی پاؤں سے اکھڑتے رہے
رائیگاں ہے مسافت شب و روز
وقت بے مصرف و گمان ہے بس
اور کچھ تھا بھی گر تو کس کو خبر
ہم نے ہر آئینے کو توڈ دیا
سو گۓ تان کر فلک اپنا
اور اینٹوں سے سر کو پھوڑے لیا
اور قرب و جوار ہستی میں
نرم ہوتی ہوئی جگہ پہ کہیں
ایک بستربچھا لیا میں نے
ایک پتھر سے خود کو جوڑ لیا
ابرار احمد