اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے، اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا
یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیب
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
ادیب سہارنپوری