تھا روشنی میں پہ گہہ رہا تھا
میں تھا سلامت کہ ڈھ رہا تھا
عجیب عالم تھا جسم و جاں کا
قدم نہ اٹھتے تھے شل بدن تھا
یقیں گماں تھا
وہ پل قرن تھا
جو آج صحرا ہے کل چمن تھا
اسی تذبذب میں تھا ابھی میں
کہ
میرے ماتھے کو ننھے ہاتھوں نے یوں ہلایا
کہ جیسے مجھ کو جگا رہے ہوں
پلٹ کے دیکھا
تو میری بیٹی سر ہانے بیٹھی تھی
میرا کاندھا ہلا رہی تھی
جگا رہی تھی
ہے کیا حقیقت بتا رہی تھی!
*****