گھر عطا کر ، مکاں سے کیا حاصل
صرف وہم و گماں سے کیا حاصل
بے یقینی ہی بے یقینی ہے !
ایسے ارض و سماں سے کیا حاصل
آفتِ نا گہاں کو روکے کون؟
دولتِ بیکراں سے کیا حاصل
ایک چہرہ ہے کائنات مری!
صورتِ دیگراں سے کیا حاصل
جب خوشی ہی نہ اپنے ساتھ رہی
دولتِ جسم و جاں سے کیا حاصل
اب تو دل میں نہیں کوئی خواہش
صرف خالی دکاں سے کیا حاصل
اپنے اعمال کو بھی بدلو عدیل
صرف آہ و فغاں سے کیا حاصل