اِن عقیدوں کے ، نسب کے ، نام کے
ختم ہوں جھگڑے یہ صبح و شام کے
یہ ملو کیت ، یہ سب دہشت گری
اور سب جھنڈے تلے اسلام کے
بے اثر ہیں اُن پہ سب اسم و سحر
وہ جو عاشق ہیں تمہارے نام کے
کیا تماشہ ہے ، سرِ آغاز ہی
منتظر بیٹھے ہیں سب انجام کے
زندگی بھر بس تگ و دو ہی رہی
کاش! دن آجائیں اب آرام کے
کون ہے جو سچ کو اپنائے عدیل
کوئی تو اٹھے جگر کو تھام کے