محبت کی سزا پائی بہت ہے
ہمارے غم میں گیرائی بہت ہے
کھڑا میلے میں اکثر سوچتا ہوں
مرے اندر تو تنہائی بہت ہے
نہیں ہے اور کوئی صرف میں ہوں
فلک سے یہ صدا آئی بہت ہے
کما لیں شہرتیں سستی سی ہم بھی
مگر اس میں تو رسوائی بہت ہے
تصور شرط ، سب کچھ سامنے ہے
نظر والوں کو بینائی بہت ہے
نہ بھر پائیں گے اب نظرِ کرم سے
کہ ان زخموں میں گہرائی بہت ہے
عدیل اُس کو کہاں تم بھول پائے
قسم گو تم نے یہ کھائی بہت ہے