* چٹختا رہتا ہے رات دن جو دماغ میرا *
چٹختا رہتا ہے رات دن جو دماغ میرا
مرے لہو سے بھرا نہ ہو یہ ایاغ میرا
یہ بات اُس پر کھلے گی کچھ دیر بعد جا کر
کہ دور جا کر ملے گا مجھ سے سراغ میرا
چلو کہیں تو کھلا ہوا ہے وہ پھول آخر
یہ سوچ کر ہورہا ہے دل باغ باغ میرا
ہوا جہاں سائیں سائیں کر کے بکھر رہی ہے
کبھی بجھا تھا یہیں کہیں اک چراغ میرا
الجھ رہا تھا لہو سے نشہ خمار بن کر
کسی نے پھر لا کے بھر دیا ہے ایاغ میرا
ضرور کوئی نہ کوئی چکر ہے اس جہاں میں
نظر اٹھاؤں تو گھومتا ہے دماغ میرا
*************** |