* وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہوا *
وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہوا
میں بھی ہوں آج جوش۔ طلب سے بھرا ہوا
شورش مرے دماغ میں بھی کوئی کم نہیں
یہ شہر بھی ہے شوروشغب سے بھرا ہوا
ہاں اے ہوائے ہجر، ہمیں کچھ خبر نہیں
یہ شیشہ۔ نشاط ہے جب سے بھرا ہوا
ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر
اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا
ٹکراؤ جا کے صبح کے ساغر سے آفتاب
دل کا یہ جام، وعدہ۔ شب سے بھرا ہوا
************ |