* “یہ بات راہ رو۔ نکتہ داں سے دور نہیں *
“یہ بات راہ رو۔ نکتہ داں سے دور نہیں “
زمیں کہیں کی بھی ہو، آسماں سے دور نہیں
سمندروں کا سفر ہے تو حوصلہ رکّھو
ہوا کا لمس کسی بادباں سے دور نہیں
وہی مہک ہے جو رستہ سُجھا رہی ہے مجھے
سو چل رہا ہوں اور اُس گلستاں سے دور نہیں
وہ ایک خواب کہ جس کا خیال رہتا ہے
یقیں سے دور ہو لیکن گماں سے دور نہیں
میں اُس کو چوم کے آیا ہوں اور یہ سوچتا ہوں
یہ واقعہ ہے مگر داستاں سے دور نہیں
نئے زمانے کو جاتے ہوئے یہ دھیان رہے
یہ راستہ بھی رہ۔ رفتگاں سے دور نہیں
میں ایک حرف لکھوں اور حوالہ بن جائے
یہ معجزہ مرے عجز۔ بیاں سے دور نہیں
************** |