* اجنبی خوف فضاؤں میں بسا ہو جیسے *
اجنبی خوف فضاؤں میں بسا ہو جیسے
شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے
رات کے پچھلے پہر آتی ہیں آوازیں سی
دور صحرا میں کوئی چیخ رہا ہو جیسے
در و دیوار پہ چھائی ہے اداسی ایسی
آج ہر گھر سے جنازہ سا اٹھا ہو جیسے
مسکراتا ہوں پئے خاطرِ احباب مگر
دکھ تو چہرے کی لکیروں پہ سجا ہو جیسے
اب اگر ڈوب گیا بھی تو مروں گا نہ کمال
بہتے پانی پہ میرا نام لکھا ہو جیسے
|