* بے درد زمانے سے ٹکرا بھی نہیں سکتے *
غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
بے درد زمانے سے ٹکرا بھی نہیں سکتے
اظہار محبت سے باز آ بھی نہیں سکتے
حالات کچھ ایسے ہیں نذرانۂ دل اُس کا
ہم لے بھی نہیں سکتے ٹھکرا بھی نہیں سکتے
دیتا ہے نگاہوں سے وہ دعوتِ مینوشی
’’ ہم پی بھی نہیں سکتے چھلکا بھی نہیں سکتے‘‘
رہ رہ کے نہ جانے کیوں ہوتی ہے خَلِش دل میں
ہم سوزِ دروں اپنا دکھلا بھی نہیں سکتے
دستک کوئی دیتا ہے جب اپنے درِ دل پر
کیا ہم پہ گُذرتی ہے بتلا بھی نہیں سکتے
اظہارِ ندامت ہم اب اُس سے کریں کیسے
ہم کھو بھی نہیں سکتے اور پا بھی نہیں سکتے
ناکردہ گُناہی کی ملتی ہے سزا ہم کو
الزام جو ہے ہم پر جُھٹلا بھی نہیں سکتے
یہ عقدۂ لاینحل ایسا ہے جسے برقیؔ
اُلجھا بھی نہیں سکتے سُلجھا بھی نہیں سکتے
***** |