سخنور انٹرنیشنل فورم کے فی البدیہہ
طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ساتھ رہتے ہوئے اُس نے مجھے تنہا رکھا
’’ لبِ ساحل بھی مجھے شوق نے پیاسا رکھا‘‘
اک جھلک اپنی دکھا کر وہ دوبارہ نہ ملا
تیرہ و تار مرا قصرِ تمنا رکھا
کیا کہوں کیسے کہوں گُنگ زباں ہے میری
کوئی ایسے نہ ہو اُس نے مجھے جیسا رکھا
بامِ شہرت پہ پہنچ کر وہ مجھے بھول گیا
میں نے جس شخص سے بھی درد کا رشتہ رکھا
کاش اُس پر نہ بھروسا کیا ہوتا میں نے
وعدۂ حشر پر پہ جس نے مجھے اُلجھا رکھا
دیدہ و دل کی ضیافت سے بھی راضی نہ ہوا
کیا بتاؤں تجھے اُس کے لئے کیا کیا رکھا
آکے دی صرف ہواؤں نے ہی اس پر دستک
اپنا دروازہ دل جس کے لئے وا رکھا
سب کو دی دعوتِ نظارہ سرِ بزم اُس نے
صرف برقی کو ہی محرومِ تماشا رکھا
************************