غزل
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
سوچتا کیا ہے کھڑا ؟ آگے چل
اک قدم اور اٹھا ، آگے چل
جس کو آنا ہے ، چلا آۓ گا
اک صدا اور لگا ، آگے چل
توڑ کر اپنے تذبذب کا حصار
اے مرے راہنما ! آگے چل
نہ سمجھ سازِ جرس کو منزل
دُور ہے کوہِ نِدا ، آگے چل
بحرِ پُر شور سے خائف مت ہو!
بڑھ کے پتوار اٹھا ، آگے چل
معجزوں کی ہے توقع بے سُود !
یدِ موسیٰ نہ عصا ، آگے چل
روشنی سی ہے اندھیرے میں کہیں!
اک دِیا تُو بھی جَلا ، آگے چل
خُوشبوۓ یار بھی مِل جاۓ گی
تھام کر دستِ صبا ، آگے چل
منصفِ وقت گراں خواب سہی !
پھر بھی زنجیر ہِلا ، آگے چل
ہاتھ پھیلاۓ کھڑی ہے خلقت
بانٹ کر حرفِ دُعا ، آگے چل
خاک مت چھان یہاں کی بے کار
لُٹ چکا شہرِ وفا ، آگے چل
تیری کاوش کے خریدار کہاں !
غم کی تصویر اُٹھا ، آگے چل
سر چھپانے کو ٹھکانہ نہ سہی
ہے برسنے کو گھٹا ، آگے چل
کیوں ہوا، کیسے ہوا ؟ یہ مت سوچ
جو ہوا ، اس کی رضا ، آگے چل
ظلم ہے ، ظلم کی حد بھی ہو گی
دیکھتا ہے وہ خُدا ، آگے چل
شور برپا ہے سرِ مقتل پھر
ہے بہت تلخ فضا ، آگے چل
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸