* دھوپ کی شدت میں ہر نخلِ تمنا جل گیا *
دھوپ کی شدت میں ہر نخلِ تمنا جل گیا
شہر صحرا بن گیا صحرا میں صحرا جل گیا
موت مجھ کو جشن کی صورت میں آتی کس طرح
میں چراغِ رہگزر تنہا تھا تنہا جل گیا
روشنی خنجر بنی ہے میرے دل کے واسطے
فکر وہ موجِ رواں تھی جس سے دریا جل گیا
بارہا چشمِ تماشا میں جو روشن ہوگئی
دیکھنا اُس آگ میں کیا کچھ رہا کیا جل گیا
زندگی میرے لئے احمد ظفر الزام ہے
دامنِ دل کیا جلا دامانِ دنیا جل گیا
|