* تُو محور ہے میں تیرا دائرہ ہُوں *
غزل
~~~
تُو محور ہے میں تیرا دائرہ ہُوں
ترے آغاز کی میں انتہا ہُوں
حصارِ دست میں رکھنا ھَوا ہے
دیارِ آرزو کا میں دِیا ہُوں
ارداوں کو بکھرنے ہی نہ دُوں گی
تری ہمّت ہُوں تیرا حوصلہ ہُوں
کبھی لیلیٰ کے ہاتھوں کا لہُو تو
کبھی سوہنی کا میں کچّا گھڑا ہُوں
تُو میری دھڑکنوں کا ساز ٹھہرا
ترے ہونٹوں پہ لہراتی صدا ہُوں
تُو دیکھے صرف ، جس میں عکس اپنا
وہی میں خوش مقدر آئینہ ہُوں
ہزاروں میل تجھ سے دُور ہُوں پر
مُجھے لگتا ہے میں سایہ تِرا ہُوں
کبھی سپنوں کی صورت نیند تیری
کبھی آنکھوں کا تیری رتجگا ہُوں
سُن اے خوشبُو گُلابِ جاں فِزا سُن
سفر جس میں کرے تُو وہ ھَوا ہُوں
میں جس کے دل کی دھڑکن بن گئی ہُوں
وہ کہتا ہے ! میں تُجھ میں جی رہا ہُوں
دھڑکتی ہے جو دل میں مدتوں سے
اُسی آشا کا عاشی مُدَعا ہُوں
~~~~~~~~
عائشہ بیگ
~~~~~~~~
|