غزل
٭……اکبر حسین اکبر الہ آبادی
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سُلجھارہا ہے اور سرا ملتا نہیں
معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتہ ملتا نہیں
غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غمِ عقبیٰ مزا ملتا نہیں
کشتیِ دل کی الٰہی بحر، ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن باخُدا ملتا نہیں
زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
اُن کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں
صرف ظاہر ہو گیا سرمایہ زیب و صفا
کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشانِ نقش پا ملتا نہیں