غزل
٭……اکبر حسین اکبر الہ آبادی
ہرقدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لئے
منزلِ ہستی نہیں ہے دل لگانے کے لئے
کیا مجھے خوش آئے یہ حیرت سرائے بے ثبات
ہوش اُڑنے کے لئے ہے جان جانے کے لئے
خوب امیدیں بندھیں لیکن ہوئیں حرماں نصیب
بدلیاں اُٹھیں مگر بجلی گرانے کے لئے
سانس کی ترکیب پر مٹی کو پیار آہی گیا
خود ہوئی قید اُس کو سینے سے لگانے کے لئے
جب کہا میں نے بھُلا دو غیر کو ہنس کر کہا
یاد پھر مجھ کو دلانا بھول جانے کے لئے
مجھ کو خوش آتی ہے مستی، شیخ جی کو فربہی
میں ہوں پینے کے لئے اور وہ ہیں کھانے کے لئے
سُر کہاں کے ، ساز کیسا، کیسی بزم سامعیں
جوشِ دل کافی ہے ، اکبرؔ تان اڑانے کیلئے