غزل
٭……اکبر حسین اکبر الہ آبادیؔ
کہاں وہ اب لُطفِ باہمی ہے، محبتوں میں بہت کمی ہے
چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کہ ہر طبیعت میں برہمی ہے
مری وفا میں ہے کیا تزلزل، مری اطاعت میں کیا کمی ہے
یہ کیوں نگاہیں پھری ہیں مجھ سے، مزاج میں کیوں یہ برہمی ہے
وہی ہے فضلِ خدا سے اب تک ترقیِ کارِ حُسن و الفت
نہ وہ ہیں مشقِ ستم میں قاصر، نہ خونِ دل کی یہاں کمی ہے
عجیب جلوے ہیں ہوش دُشمن کے وہم کے بھی قدم رکے ہیں
عجیب منظر ہیں حیرت افزا، نظر جہاں تھی وہیں تھمی ہے
نہ کوئی تکریمِ باہمی ہے، نہ پیار باقی ہے اب دلوں میں
یہ صرف تحریر میں’’ ڈیر سر‘‘ ہے یا ’’ جناب مکرمی‘‘ ہے
کہاں کے مسلم، کہاں کے ہندو بھُلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں
عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ، نہ گیارہویں ہے نہ اشٹمی ہے
اگرچہ میں رندِ محترم ہوں مگر اسے شیخ سے نہ پوچھو
کہ اُن کے آگے تو اس زمانے میں ساری دنیا جہنمی ہے
*******