* صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہی *
صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں
ایک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں
عشرتِ رفتہ نے جا کر نہ کیا یاد یمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
اب یہ حالات ہیں کہ ہم ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں
شعر کہتے ہو بہت خوب تم اختر لیکن
اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں
|