* چپک گیا ہے جلی انگلیوں کی پوروں سے *
چپک گیا ہے جلی انگلیوں کی پوروں سے
بجھے چراغ میں جیسے شرر تھا خوابیدہ
خود اپنی ذات کی تردید کے شواہد بھی
میرے خلاف صف آرا میرے خلاف گواہ
ثبوتِ جرم میں کیا منصفوں کو پیش کروں
نشانِ زخم ہے دیوارِ جسم پر لیکن
سوادِ زخم میں بارود کی لکیر نہیں
سپید ئہ سحری میں گھُلی ہوئی ظلمت
بدن کی لوح پہ اتری تو سطر سطر ہوئی
میرے خلاف صف آرا میرے خلاف گواہ
|