* صبا چلے گی پھر اس شاخَ بے وطن کی طرف *
صبا چلے گی پھر اس شاخَ بے وطن کی طرف
طیور لوٹ کے آئیں گے آشیانوں میں
اتر کے ابر مناجات کے پہاڑوں سے
خرابہء شب اہلِ دعا پہ برسے گا
تار نئے قاصدوں کے جسموں سے
کنارِ صبح نئی اُمتیں اتاریں گی
صبا چلے گی پھر اس شاخَ بے وطن کی طرف
کہ جس کی ماتمی چھاؤں میں بے خبر موسم
کسی پیام کی خوشبو کے انتظار میں ہیں
|