* نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا *
نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا
دو نیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے
پھر ایک بار کھلی پیش بینیوں کی زمیں
وہی طلب کی ہوائیں ، وہی گریز کے پھول
مدارِ ذات کے اندر رکے ہوئے سورج
قدم جمے ہوئے گاڑی کے پائیدانوں پر
کلی کلی پہ پریشان خیال کی تتلی
گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا
نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا
دو نیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے
|