* گُل بدست و گل بداماں تھے یہاں اشجا *
(اختر شاہجہاں پوری(شاہجہاں پور)
گُل بدست و گل بداماں تھے یہاں اشجار سب
تھی ہوائوں میں یہاں نازک خرامی ہر طرف
طائران خوشنو ا کے چمچے تھے چار سو
آسماں سے مئے برستی تھی یہاں آٹھوں پر
میکشوں کے جام بھی لبریز رہتے تھے۔ یہاں
وصل کی خوشیاں مناتے تھے یہاں سب اہلِ دل
یہ اچانک کیا ہوا چلنے لگی کیسی ہوا
پھول شاخوں پر نہیں پتے ہوئے ہیں زرد سے
اب ہوائوں میں کوئی خوشبو نہ کوئی تازگی
طائرانِ خوشنو ا بیٹھے ہیں دم سادھے ہوئے
آسماں سے مئے برستی ہی نہیں
میکشوں کے جام خالی میکدے ویران ہیں
اختر ؔ خوش فکر کو معلوم ہے اس کا سبب
چند مذہب کے جنونی اور کچھ دھرماتما
نفرتوں کا زہر بھرتے جا رہے ذہنوں میں ہیں
ان کی یہ خواہش بڑی شدت پکڑتی جا رہی ہے آج کل
ہر طرف شعلے دھواں۔ لاشیں۔ کراہیں
سسکیاں ہوں دہر میں
ایسا لگتا ہے زمانے میں کسی سے بھی شناسائی نہیں
٭٭٭
|