* وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں *
غزل
٭……اختر شیرانی
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں، خوش رہیں، مسکرادیں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا دیں
جوانی ہوگر جاودانی تو یا رب
تری سادہ دنیا کو جنت بنادیں
شب وصل کی ہے خودی چھارہی ہے
کہوتو ستاروں کی شمیں بجھادیں
بہاریں سمٹ آئیں کھل جائیں کلیاں
جوہم تم چمن میں کبھی مسکرادیں
وہ آئیں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلیاں بچھادیں
بناتا ہے منہ تلخی مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا دیں
تم افسانہ قیس کیا پوچھتے ہو
آئو ہم تم کولیلی بنا دیں
انہیں اپنی صورت پہ یوں کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا دیں
****** |