* بغیر اپنے جو ابتک جی رہا ہوں *
غزل
بغیر اپنے جو ابتک جی رہا ہوں
میں شاید خوں بہا اجداد کا ہوں
عمل حالات کے پیشِ نظر تھے
مگر ردِ عمل کا سانحہ ہوں
میں کیسے بیچ دوں آواز اپنی
کئی خاموشیوں کا آسرا ہوں
میں کرب و یاس کا آنکھوں کا آنسو
پہاڑوں سے سمندر تک گرا ہوں
کسی کو ڈھونڈ نے کی کوششوں میں
میں اپنے آپ کو بھی ڈھونڈتا ہوں
گھنے سائے کے طالب کیا سمجھتے
کہ میں اندر سے کتنا کھوکھلا ہوں
کوئی آئے اُٹھائے مجھ کو آزرؔ
بہت سنبھلا ہوں لیکن گر پڑا ہوں
****
|