* خواب دیکھو تو اسکا رکھو پاس *
غزل
خواب دیکھو تو اسکا رکھو پاس
اے میرے دوست اے عوام ُالنّاس
بک گیا جسم علم تُل بھی گیا
اور کس مول بکیں گے اجناس
رُت بہاروں کی آرہی ہے مگر
اب گریباں کہاں ہمارے پاس
چڑھ گیا ہے زباں پہ زہر کا رنگ
اب کسے یاد تیرے لب کی مٹھاس
تیرگی سے ہے روشنی کا وقار
مجھ کو رہنے دے میری جان اُداس
تم پریشاں ہو بے سبب آزرؔ
کس کا آیا ہے یہ زمانہ راس
****
|