* میں پریشان ذات بکھری ہوئی *
غزل
میں پریشان ذات بکھری ہوئی
مرحلے سخت ، رات بکھری ہوئی
دل کرشمے کی آس میں زندہ
روح زخمی حیات بکھری ہوئی
پر سمیٹے طیور نے اپنے
رہ گئی کائنات بکھری ہوئی
شہر در بند کی فضا میں تھی
خنکئی واردات بکھری ہوئی
پا شکستوں پہ طنز کرتی ہے
اوس اوڑھے نبات بکھری ہوئی
****
|