* فضا میں ریت کے ذرّات بانٹے *
غزل
فضا میں ریت کے ذرّات بانٹے
بگولہ آپ اپنی ذات بانٹے
وہی جو ایک مدّت سے نہیں ہے
وہی اب بھی مرے آفات بانٹے
ہراک پردے کے پیچھے کی صدا نے
دلوں کے درمیاں خدشات بانٹے
زیاں کا تجربہ بھی کارگر ہے
اگر ادراک کے سوغات بانٹے
اسی کا ہو رہا ہے اب تصرّف
ہمیشہ جس نے اخراجات بانٹے
وہی لمحہ ابھی تک سرخرو ہے
کہ جو بے رنگیٔ اوقات بانٹے
گھروندہ ریت کا بکھرا تو اس نے
ہوا کے نام الزامات بانٹے
وہیں ٹھری ہوئی ہے زیست اپنی
جہاں تک آپنے دن رات بانٹے
****
|