* ہمیں کل کے سنہرے خواب ہوں گے *
غزل
ہمیں کل کے سنہرے خواب ہوں گے
ابھی کمیاب ہیں نایاب ہوں گے
سمجھ رکھّا تھا دنیا سے الگ کچھ
تمہاری بزم کے آداب ہوں گے
وفا کے نام کا طوفاں اُٹھا ہے
جزیرے دل کے زیرِ آب ہوں گے
درونِ خانۂ دل ابتری کے
سراسر خارجی اسباب ہوں گے
سرِ فہرست اب بھی دشمنوں میں
ہمارے اپنے ہی احباب ہوں گے
بہار آئے نہ آئے ہم تو آزرؔ
تری یادوں سے ہی شاداب ہوں گے
****
|