* برباد تھا برباد ہوں ، برباد رہوں گ *
غزل
برباد تھا برباد ہوں ، برباد رہوں گا
لیکن اے زمانہ میں تجھے یاد رہوں گا
کھو جائے گی پہچان نئے شہر میں لیکن
پُرکھوں کی روایات سے آزاد رہوں گا
بس اس کے لبوں پر رہے اقرار کا موسم
پھر جیسے بھی حالات رہے شاد رہوں گا
شائستہ حدوں سے میں گذر جائوں گا اک دن
کب تک میں اسیرِ ستم ایجاد رہوں گا
آیا نہ اگر راس مجھے شہرِ تمنّا
زخموں کی مضافات میں آباد رہوں گا
خودار طبیعت کی سزا پائوں گا آزرؔ
محتاج تعارف پسِ اجداد رہوں گا
****
|