* سانس ندی کی تیز ہوئی ماجھی لوٹے *
غزل
سانس ندی کی تیز ہوئی ماجھی لوٹے
پیڑوں میں پرُوا سنکی پنچھی لوٹے
سڑکوں پہ آوارہ رہ گئی تاریکی
آنگن آنگن جگنو کے ساتھی لوٹے
تیری طلب میں ایک انوکھی سی ہے کشش
پھر ہیں سفر پہ آمادہ جو بھی لوٹے
تاریکی میں دو سایوں کے ملتے ہی
جا نے کتنی آنکھو ں میں ما ضی لوٹے
بستی بستی ڈھونڈ کے انکو ہارے جب
غم کے قبیلے میں دل کے راہی لوٹے
راہِ طلب میں کوچئہ قاتل جب آیا
دیوانے ہی آگے بڑھے باقی لوٹے
****
|