* پابند کیا کریں گے ہمیں نتِ نئے حصا *
غزل
پابند کیا کریں گے ہمیں نتِ نئے حصار
ہم آہوئے حیات اسیرانِ بے حصار
منہ د یکھتی ہی رہ گئیں زخموں کی سرحدیں
موجِ خیال پھاند گئی درد کے حصار
سرکش تو آج بھی ہوںمگر گھیرتے ہیں اب
اپنے ہی گھر کے ننھّے منّے کھیلتے حصار
انجام کار دوریاں سمٹیں گی ایک دن
کب تک یہ قید و بندِ گراں تا بکے حصار
تجھ سے بچھڑ کے آج کہاں آگیا ہوں میں
زنداں لگے ہے شہرِ طرب ٗ راستے حصار
اب سرحدوں پہ خو اب کی ہیں پہرہ داریاں
اب فکر کے محاذ پہ کھینچے گئے حصار
****
|