* تیرے در تک نہ پہنچ پائے گی پتہ تھا ک *
غزل
تیرے در تک نہ پہنچ پائے گی پتہ تھا کسے
زندگی یونہی گزر جائے گی پتہ تھا کسے
شاخِ نوخیز پہ کچّے ہی ابھی پھل تھے مگر
باڑھ پتھر کی چلی آئے گی پتہ تھا کسے
دل کی زرخیز تمنّائیں تہِ آب رہیں
مو ج دریا سے بھی شر مائے گی پتہ تھا کسے
کیا خبر تھی کہ بدل جائے گا اتنا موسم
گندمی دھوپ بھی کجلائے گی پتہ تھا کسے
جانتا میں تو کبھی جانے نہ دیتا اس کو
شام وہ پھر نہ کبھی آئے گی پتہ تھا کسے
آشنا اس کو بھی کر دیگی متاع غم سے
ایک بیمار کی ہمسائیگی پتہ تھا کسے
نو بہ نو قدر کی تعمیر کے دوران کہیں
دل کی دیوار بھی گرجائے گی پتہ تھا کسے
**** |