* اب میں ہوں اور ہجر کے جنگل ڈرائونے *
غزل
اب میں ہوں اور ہجر کے جنگل ڈرائونے
دنیا سے دور کر دیا تیرے لگائو نے
جھکنے پہ شاخسار کو مجبور کر دیا
خود آشنا پھلوں کے مسلسل دبائو نے
پھر باندھوں کس امید پہ رختِ سفر کہ جب
بے آسرا کیا ہے مجھے ہر پڑائو نے
یوں ہی نہیں ہیں چاک قبائیں بہار کی
کردار بھی ہے اہلِ چمن کے گھنائونے
دل بھی ہوا اُسی کی جفائوں سے پائمال
سر بھی کیا بلند اسی کے جھکائو نے
جب لوگ اپنا اپنا بدن تاپ کر اُٹھے
شعلوں پہ اپنے راکھ اوڑھادی الائو نے
****
* |