donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ali Sardar Jafri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* قتلِ آفتاب *
 قتلِ آفتاب

شفق کے رنگ میں ہے قتلِ آفتاب کا رنگ
اُق کے دل میں ہے خنجر لہو لہان ہے شام
سفید شیشۂ نور اور سیاہِ بارش سنگ
زمیں سے تابہ فلک ہے بلند رات کا نام
یقیں کا ذکر ہی کیا ہے کہ اب گماں بھی نہیں
مقامِ درد نہیں منزلِ فغاں بھی نہیں
وہ بے حسی ہے کہ جو قابل بیاباں بھی نہیں
کوئی ترنگ ہی باقی رہی نہ کوئی اُمنگ 
جبینِ شوق نہیں سنگِ آستاں بھی نہیں
رقیبِ جیت گئے ختم ہو چکی ہے جنگ
دِلوں میں شعلہ غم بجھ گیا ہے کیا کیجئے
کوئی حسین نہیں کس سے اب وفا کیجئے
سوائے اس کے کہ قاتل ہی کو دعاء دیجئے
مگر یہ جنگ نہیں وہ جو ختم ہو جائے
اک انتہا ہے فقط حسنِ ابتداء کے لئے
بچھے ہیں خارکہ گزریں گے قافلے گل کے
خموشی مہر بہ لب ہے کسی فغاں کے لئے
اُداسیاں ہیں یہ سب نغمہ و نوا کے لئے
وہ پہنا شمع نے پھر خون آفتاب کا تاج
ستارے لے کے اُٹھے نورِ آفتاب کا جام
پلک پلک پہ فروزاں ہیں آنسوئوں کا چراغ
لویں لچکتی ہیں یا بجلیاں چمکتی ہیں
تمام پیرہن شب میں بھر گئے ہیں شرار
ہزار لب سے زمیں کہہ رہی ہے قصہ درد
ہزار گوش جنوں سن رہے ہیں افسانہ
چٹک رہی ہیں کہیں تیرگی کی دیواریں
لچک رہی ہیں کہیں شاخِ گل کی تلواریں
سنک رہی ہے کہیں دشتِ سرکشی میں ہوا
چہک رہی ہے کہیں بلبل بہار نوا
مہک رہا ہے وفا کے چمن میں دل کا گلاب
چھلک رہی ہے لب و عارض و نظر کی شراب
جوان خوابوں کے جنگل سے آرہی ہے نسیم
نفس میں نکہت  پیغام انقلاب لئے
خبر ہے قافلہ رنگ و نور نکلے گا
سحر کے دوش پہ اک تازہ آفتاب لئے
٭٭٭
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 336