donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ali Yasir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* شغف نہیں تھا ذرا بھی مجھے پڑھانے س *
شغف نہیں تھا ذرا بھی مجھے پڑھانے سے 
مگر وہ روز سرِ شام اس کا آجانا
کتاب لے کے مرے سامنے بہانے سے 
کوئی تو سوچ تھی، جو سوچتی وہ رہتی تھی 
جھکا کے سر کو مرے پاس آکے کہتی تھی
کئی سوال سمجھنے ہیں آپ سے میں نے!
نہ ہو کہ آپ مجھے لا جواب ہی کردیں 
مری نگاہ کو پامالِ خواب ہی کردیں 
حسین آنکھوں میں وہ آرزو کے ڈورے تھے 
وہ اس کے گال تھے یا خون کے کٹورے تھے 
پسینہ تھا کہ ٹپکتا تھا اس کے ماتھے سے 
نگاہیں اشکِ حیا سے بھری بھری اس کی 
وفورِ شرم سے وہ ہونٹ کپکپاتے ہوئے 
قدم زمیں پہ جو دھرتی تو لڑکھڑاتے ہوئے 
کتاب مجھ کو تھما کر وہ سامنے بیٹھی 
تھمائی مجھ کو لبوں سے نکال کر پنسل 
نہیں فرق، کتاب اور اس کے چہرے میں 
میں اس کو دیکھتا اور دیکھتا ہی رہ گیا تھا 
وہ اس کا دستِ گلابی ورق پلٹتا ہوا 
وہ آنچل اس کا مرے سامنے سرکتا ہوا 
حروف بھی مری نادانیوں پہ ہنستے تھے 
وہ اپنے سینے سے پھر نوٹ بک ہٹا لیتی 
اک آرزو مری آغوش میں لٹا دیتی 
خلا میں تکتے ہوئے رخ جب اس نے موڑا تھا 
خموش تھا میں، اسی نے سکوت توڑا تھا 
حساب آپ کو آتا نہیں، یہ جانتی ہوں 
سوال چھوڑیں کوئی شعر ہی کریں تحریر
یہی ہے میرا اثاثہ، یہی مری تقدیر 
میں اس کی باتوں کی گہرائیاں سمجھتا تھا 
سوادِ بزم بھی تنہائیاں سمجھتا تھا 
قلم، کتاب، سبھی میں نے اس کو لوٹایا 
کہ جیسے پیشکشِ آرزو کو ٹھکرایا 
چلی گئی وہ کسی خوابِ خوبرو کی طرح 
کئی برس ہوئے اس بات کو علی یاسر
میں اس کو یاد بھی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں 
ہزار شعر کی میں اک غزل لکھوں اس پر 
میں اپنے یاد خزانے فدا کروں اس پر 
جو سوچتا ہوں تو دل سے جواب آتا ہے 
اسے تو، مجھ سے زیادہ حساب آتا ہے
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 389