* دل ہے بے چین زمانے میں خوشی دیکھنے *
دل ہے بے چین زمانے میں خوشی دیکھنے کو
پر بیاباں میں کہاں کوئی کلی دیکھنے کو
میں نے ہر لہر پہ جلتی ہوئی آنکھیں رکھ دیں
لوحِ ساحل پہ لکھا حرفِ جلی دیکھنے کو
سبزہ و آب نہیں، گنبد و محراب نہیں
صورتِ وادیٔ ویراں ہی ملی دیکھنے کو
شہرتِ سنگ تراشی نہ مری پھیل سکی
اک جہان آیا تری شیشہ گری دیکھنے کو
چشمِ آوارہ کہیں دم نہیں لینے دیتی
روز مل جاتی ہے اک شکل نئی، دیکھنے کو
میں یہ سنتا ہوں وہاں میرا مکاں تھا، پہلے
چل پڑا ہوں سوئے افلاک وہی دیکھنے کو
خال و خد میں نے بہر طور بنائے یاسر
کبھی آیا نہ وہ تصویر مری دیکھنے کو
|