* تری خوشی سے اگرغم میں بھی خوشی نہ ہ *
تری خوشی
تری خوشی سے اگرغم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
افسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچہ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہوئی تھی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے جامرا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھرمیں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
****** |