donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Altaf Feroze
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* جھوٹھن *

افسانہ
جھوٹھن


میں نے بلاآخر گاوں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اس وقت جب کہ میں اپنا سامان باندھنے میں مصروف ہوں تو جہاں میرے ماںباپ ناراض ہیں وہاںگاوں والے الگ پریشان ہیں کہ نجانے اُن سے کیا خطا سرزد ہو گئی ہے کہ میں گائوں چھوڑکر جا رہا ہوں،مگر میں اُن سب کو کیسے سمجھاوںکے اب میرا گھر والوں سے الگ ہو جانا ہی ایک بہتر فیصلہ ہے ،چلیے جب تک نور الہی اسٹیشن جانے کے لیے ٹانگہ تیار کرتا میں جاتے جاتے آپ کو اپنی کہانی سناتا جائوں۔
میں نا جانے کب سے بے ثمری کے برزخ میں جی رہا ہوںاورجب خود کو اسقدر قابلِ نفرت مقام پر کمال دلیری وبے باکی سے کھڑا پاتا ہوں تو مُجھے اپنے ماضی پر بے ساختہ پیار آنے لگتا ہی، میں اردگرد کے دیہاتوںمیں بسنے والے غریب ،ان پڑھ اور توہم پرست لوگوں کے ان داتا اور پیرو مرشد ،بڑے شاہ صاحب کی واحد اُولاد ہوں، میرا بچپن زبیدہ کے ساتھ معصوم جذبوں کی خوش رنگ تتلیوں کے پیچھے بھاگتے اورچُھپَن مٹی کھیلتے گذرا،عمر کی گلیوں میںاکھٹے بھاگتے دوڑتے ہم لڑکپن کی گلی کا موڑ موڑے مگر جوانی کی شاہراہ پر میں نے خود کو تنہا پایا تو اُس کے وجود نے خواہش کا روپ دھار کر میرے دل کے آنگن میں سمادھی لگا لی،مگر یہاں ہمیشہ سے یونہی ہوتا چلا آیا ہے کہ خواہشیں پالنے والا یاتو اپنی خواہشوں کو ساتھ لے کر زندگی گذارتا ہے اور یا پھر اپنے والدین کواور میرے لیے توخواہشوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ اور بھی مُشکل تھا کہ فیصلے کے دوسرے پلڑے میں میرے والدین اور اُن کا رُتبہ ہی نہیں بلکہ گاوئں کی عزت اور دیہاتیوں کے اَن داتا اور مشکل کشاکا اندھی عقیدت سے تراشا بت بھی پڑا تھا۔ اور اتنے بہت سارے رتبوں کے ہوتے اگر مخالف پلڑے میںکوہِ ہمالیہ بھی رکھ دیا جائے تو رتبوں والا پلڑا نہ اُٹھے اور کُجا پلڑے میں ہمالیہ کی بجائے تتلیوں کے نازک پروں ایسی کسی دل کی رنگیں خواہشیں،چند آنسو اور بیتے دنوں کی معصوم محبت کی یادیں پڑیں تھیں ۔ محبت جس کورتبوں کے ناگ نے ڈس لیا ،اور جو مذہب کے نام پر کھڑی کی جانے والی دکھاوی،تعصب اور جھوٹی انّا کی دیوار تلے دب کرسسکے بغیر دم توڑ گئی۔
اپنی محبت کو پاجانے کے لیئے میں نے مقدور بھر کوشش کی۔ میں نے باوجود سب کُچھ جان لینے اور دل ہی دل میں ہار مان لینے کے اپنی سی آخری کوشش کرنے کی ٹھانی اور ماں سے مدد چاہی مگر اُس نے بھی کورا جواب دے دیا وہ بولی " بیٹا دیکھ ایک تو اُس کا تعلق کمی خاندان سے ہے اور،اگر کوئی کمی ہمارے کسی برتن میں مُنہ مار کر اُسے جھوٹھا کر دے تو ہم وہ برتن کتوں کو راتب ڈالنے کے لیے الگ کر دیتے ہیں، دوسرا وہ ہمارے مرید ہیں اور اُن کے باپ ،دادا،ہمارے بڑوں کے زمانے سے ہمارے حجروں میںسلام کو آتے اور ہمیںاپنا پیرو مرشد مانتے چلے آئے ہیں، یہ سننے کے بعد میں بالکل ہی بے دم ہو گیا، اگرچہ میں ان خود ساختہ عزت و بڑائی کے معیاروں کو تسلیم نہیں کرتا،وہ شاید اس لیے کہ میںاپنے علاقے کا پہلا ہونہار پُوت تھا جس نے شہر جا کر بی اے کی ڈگری لی تھی۔کتابوں میں پڑھائے جانے والے آدرشوں سے مجھے انسانیت کی بنیاد پر برابری کے اصول کا ادراک ہوا تھا اور تعصب کی دھند میری آنکھوں پر سے چھٹ چکی تھی۔ میں انسانی عظمت کو چار چاند لگانے والے اصولِ مساوات کے خُمار میں سر شار امن و شانتی کی منزل کو اگلے قدم پر محسوس کرتا لوگوں کے چہروں پر سے فضول اور دقیانوسی رسوم و عقائد کی گرد جھاڑنے اور بے بنیاد عقیدت سے تراشے بُت کو پاش پاش کر کے اُنھیں اُن کا اصل چہرہ دکھانے کے زعم میں کتابوں سے سیکھے آدرشوں کا تیشہء لیے جذبہء ابراہیمی سے سرشار جاہلوں کی اس بستی میں گُھسا تو خرقہ سالوس میں ملبوس جس پہلے شخص سے میری مڈبھیڑ ہوئی وہ میرا باپ تھا۔ سو پہلے میں اُس کا بیٹا تھا اور بعد میں نئے آدرشوں کا علمبرداراور کُچھ یہ سوچتے ہوئے بھی کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا،میں دم سادھ کر کسی تائید غیبی کی آس میں بیٹھ گیا۔

کسی بھی گاوئںمیں زندگی ایک مخصوص ڈگر پر چلتی ہے جس میں ہر شخص کے کُچھ لگے بندھے کام ہوتے ہیں، ہمارے گاوں میں بھی دوسرے بہت سے دیہاتیوں کی طرح صبح ہوتے ہی کسان قُلبہَ کاندھے پر لٹکائے بیلوں کی جوڑی ہانکتی،کندھے سے ڈھلکتی چادر کو وقفی،وقفے سے سنبھا لتے ہا تھ میں پکڑی چوب ایک مخصوص انداز سے فضا میں اُٹھاتے گراتے خراماں خراماں کھیتوں کو نکل جاتی،راج پرائے جذبوں اور خواہشوں کی تعمیر میںجوت جاتے ، کمہار رات کی تری لگی مٹی چاک پر جماتا اور اس بے جان ڈھیر میں دھیرے دھیرے احساس کی روح پھونکنے میں لگ جاتا،وہ جب چاک کو تیز تیز گھما کرگیلے ہاتھوں سے صراحی کی گردن پر سے فالتو مٹی اُتارکر اُسے پتلا کرتا تو مُجھے یوں لگتا جیسے کوئی ہاتھ میرے گناہوں میں لتھڑے وجود پر سے دھیرے دھیرے گناہ کی کیچڑ اُتار رہا ہی، اور میںخود کو نہایت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتا، چکی کی تُوک تُوک کی مسلسل آواز سے گائوں کے گھروں کے سارے برتن بھر جاتی،اور پھر سورج کے ذرا بلند ہوتے ہی گاوں کی دراز قد اور جل تھل جسموں والی کنواریاں جو یوںتو پرائی نظر کا بوجھ تک نہیں سہار سکتی تھیںدو دو گھڑے سر پر رکھے اور ایک ایک پہلو میںدبائے نہایت اطمینان سے قطار اندر قطار گائوں کے عین درمیان میں واقعہ ٹوبے کی جانب جاتیں نظر آتیں ۔ اُن کے قدم زمین سے چند سوت اُوپر ہی کسی غیر مرئی سطح پرپڑتے اُٹھتے معلوم ہوتے اور ایک غیر محسوس جھٹکے سے اُن کی کمر کے ریشمی بل اسقدر واضح ہو جاتے کہ موٹے کھدر کے کپڑے میں سے گننے جا سکتے ۔
میرے سارا سارا دن یونہی بے کار بیٹھے رہنے پر ابّا جان نے ایک روز حتمی فیصلہ سنا دیا ، میں نے بہت ہاتھ پاوں مارے مگر میری ایک نہ چلی اور یوں مجھے خود خبر نہ ہوئی اور مریدوںنے مُجھے بڑے شاہ جی کی طرح بُت بنا کر پوچنا اور اپنا پیرو مُرشد سمجھنا شروع کر دیا۔ یوں میں گاوں کی زندگی کے نہ ٹوٹنے والے معمول کا ایک لازمی حصہ بن گیا،پھر ناجانے کب سے چلے آنے والے زندگی کے اس معمول کے دوران ایک روز میں شام کے وقت سارے مریدوں کو رخصت کرنے کے بعد،اُٹھنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ حجرے کے دروازے میںاک سایہ نمودار ہوا ،لالٹین کے دھندلائے ہوئے شیشے کی اندھی روشنی میں وہ سایہ نزدیک آتے آتے ،دو ،دو گھڑے اُٹھانے والی ایک جواں سالہ دوشیزہ کا روپ اختیار کر گیا، وہ میرے قریب پہنچ کر بے حس و حرکت کھڑی ہو گئی۔
"بیٹھ جائو میں نے اُسکے یوں کھڑے رہنے پر سپاٹ آواز میں کہا، اور وہ خود کو کمرے میں بچھی پَرال پر گراتے ہوئے میرے نزدیک کھسک آئی، مُجھے اس کا یہ بے باک انداز عجیب سا لگا ،کیونکہ دوسرے مُرید عموماً قریب بلائے جانے پر ایک محضوض جھجک اور ادب کے ساتھ تقریباً دوہرے ہو کر زمین سے لگے ہوئے ذرا ساآگے بڑھ کر روک جایا کرتے تھی۔
میں نے اُسکی دلیری پر حیران ہو کر اُسکی سمت غور سے دیکھا تو ششدرہ رہ گیا،وہ زبیدہ تھی اور ساری کی ساری اپنی آنکھوں میں آن بیٹھی تھی، ایک پل کو میرا دل مچلا کہ میں یہ سارا پاکھنڈ خود پر سے اُتار پھینکوں اور اُسے بانہوں میں سمیٹ لوں مگر پھر ابا کی لعن طعن کا خوف مرشد والے لہجے میں باہر نکلا۔
"کیا ہو گیا ہے تُجھی؟ میں نے اپنی حیرانگی کو مُرشد کے وجود میں دفن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھاکہ بقول بڑے شاہ صاحب کے مرشد کسی صورت حیران نہیں ہو تا کیونکہ حیران تو وہ ہوتا ہے جسکو رونما ہونے والے واقعات کی خبر نہ ہو۔
"شاہ جی! درد سے جان نکلی جاتی ہی،دم کروانے آئی ہوںوہ میرے لہجے کی کرختگی کو نظرانداز کرتے ہوئے عجیب خمار میںبولی،اور مُجھے پہلی مرتبہ خوف کا احساس ہوا یوں جیسے اس سارے پاکھنڈ کو میں ہی نہیں وہ بھی خوب جانتی اور محسوس کرتی ہی۔
M"اچھا تو پھرجہاں درد ہے اس جگہ کو ہاتھ سے دبا اورلے میرا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے پکڑمیں نے اپنے والد سے سیکھے ہوے طریقے کے مطابق دم کرنے کے لیے اپنا دائیاں ہاتھ آگے بڑھایا اور مرشدانا رُعب کے حامل لہجے سے بولتے ہوئے اُسے نظر انداز کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اُس نے مزید نزدیک کھسکتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے چادر میں لے گئی،اک نرم ریشمی سا لمس محسوس کرتے ہی میرے وجود سے جان نکل گئی، میرے کانوں نے دنیا کی تمام آوازوں کے لیے اپنے در بند کر لیے دماغ نے شعور کی لہریں سارے جسم سے سمیٹ لیں اور پورے وجود میں سائیں سائیں ہونے لگی ، میرا گلہ خشک ہو گیا۔
" دم پڑھیے نا شاہ جیاُس نے میرے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا اور میں یکدم ہوش میں آگیا گویا صور پھونک دیا گیا ہو، معاً میں نے اپنا ہاتھ کھینچنے کی ادھوری سی کوشش کی مگر وہ کسی صورت اُسے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھی، اُس نے میرے ہاتھ کو بہت اطمینان سے کہیںآگے کو کھسکا یا اور مجھے یوں لگا کے میرا ہاتھ ہی نہیں پورا وجود کسی پہاڑی کی ڈھلوان اُتر رہا ہی، ڈھلوان اُترکر میں نے خود کو سمیٹنا چاہا تو دہ اندھیرے میں کسی سپنی کی طرح پھنکار ی،شاہ جی سنا ہے آپ کے جس برتن میں کمی مُنہ مار دے وہ برتن آپ کتوں کے لیے الگ رکھ چھوڑتے ہیں ؟ "اُس کی پھنکار میرے کانوں میں گرم سیسے کی طرح اندر ہی اندر اُترتی چلی گئی اور وہ خود اندھیرے میں کہیں غائب ہو گئی، لوگوں کی کچی آس کی دیواروں کو ایک ایسے شعور کا سہارا دیتے دیتے جس سے میں خود بھی واقف نہیں تھا میرے وجود کی دیوار مُجھ پر آ رہی، اور یوں میں نے گاوں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ،لیجیے نورالہی ٹانگا لے آیا مُجھے اب حوصلہ کر کے چلنا ہی ہو گا اب آپ ہی کہیے میں بھلا گھر والوں کوکیسے بتاوں کہ میںاب ایک کمی عورت کا جھوٹھا کیا ہوا برتن ہوں سواُسی کے قابل ہوں۔

********************

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 310